آن لائن خرید و فرخت کے لیے دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ایمیزون کی جانب سے پاکستان کو سیلرلسٹ یعنی فروخت کنندگان کی فہرست میں شامل کرنے کے بعد پاکستان نے کاروباری افراد کو سہولت دینے کے لیے نئی قانون سازی پر غور شروع کر دیا ہے۔
Domestic and international Tourism with amazon +92 340 5705993 > apnitravelagency@gmail.com
’ایمیزون پر پاکستانی کاروباری افراد کی رجسٹریشن کا عمل شروع ہو گیا ہے تاہم اس حوالے سے تاجر افراد انتظار کر رہے ہیں کہ حکومت انہیں کچھ رعایتیں فراہم کرے تاکہ تاکہ وہ پاکستان سے ایمیزون پر رجسٹر کرنے کو ترجیح دیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے حکومت کو ای کامرس کونسل کی جانب سے تجاویز بیجھی گئی ہیں اور حکومت کا رویہ اس حوالے سے مثبت ہے
ان تجاویز میں ٹیکس کی چھوٹیں اور کاروبار کی آسانیاں شامل ہیں۔ اس حوالے سے حکومت سے بات چیت چل رہی ہے اور کوشش ہے کہ یہ معاملہ جلد حل ہو جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح پاکستان کے کاروباری افراد کو تربیت دینے کا عمل بھی شروع کیا جا رہا ہے تاکہ وہ اپنی مصنوعات کی تصاویر اور الفاظ کے زریعے ایمیزون پر مارکیٹینگ بہتر کر سکیں۔
ایمیزون کی سیلر لسٹ میں شمولیت کیوں اہم؟
ایمیزون دنیا میں آن لائن خریدو فرخت کے لیے دنیا کی سب سے مشہور کمپنی ہے جس کا ہیڈ کوارٹرز امریکہ ہے اور اس کے مالک جیف بیزوز دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہیں امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ بھی ان کی ملکیت ہے۔
یہ کمپنی ایک سوئی سے لیکر ڈرون تک اورٹی شرٹ سے لیکر کمپوٹرز تک ہر چیز آن لائن بیچتی ہے اور اس کمپنی نے بڑے بڑے سٹورز کے بزنس کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ بس لوگ گھر بیٹھے آرڈر کرتے ہیں اور کارڈ سے ادائیگی کرتے ہیں اور چیز ان کے گھر پہنچ جاتی ہے۔ کورونا کے باعث اس کے کام میں اور اضافہ ہوا ہے۔
اس اتنی بڑی کمپنی نے اب پاکستان کو اپنی سیلر لسٹ میں شامل کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اب پاکستان کے کاروباری افراد بھی اپنی اشیا دنیا بھر میں امیزون کے 20 کروڑ سے زائد گاہکوں کو فروخت کر سکیں گے۔اس طرح ان کے لیے کاروبار کی نئی دنیا کھل جائے گی۔
پاکستانی شہری ایمیزون پر کونسی اشیا بیچ سکیں گے؟
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایمیزون کوئی چھوٹا جنرل سٹور تو ہے نہیں۔ یہ ایک ایسا جمعہ بازار ہے کہ یہاں سب کچھ بکتا ہے۔ پاکستانی جوتوں سے لیکر جیکٹس، کپڑے، کھیلوں کا سامان، روح افزا، شان مصالحے غرض کچھ بھی بیچ سکتے ہیں اور تو اور ملتانی کھسے، کمالیہ کھدر یا بہالپور کے کڑھائی والے کپڑے لہنگے سب کچھ بیچا جا سکتا ہے۔
پارلیمانی سیکریٹری برائے تجارت عالیہ حمزہ ملک کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایسا سنگ میل عبور کر لیا ہے جو ملکی معیشت اور کاروباری افراد کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو گا۔
پڑوسی ملک انڈیا میں 2015 سے اب تک انڈیا سے ایمیزون پر 17 بین الاقوامی مارکیٹوں پر تقریبا تین ارب ڈالر کی اشٰیا بیچی ہیں۔
ایمیزون پر اشیا فروخت کرنے کے لیے پاکستانی تاجروں کو کیا کرنا ہو گا؟
اس پلیٹ فارم پر فروخت کے لیے پاکستانی کاروباری افراد کو ایمزون کا سیلر اکاؤنٹ بنانا ہو گا۔ خود کو یا اپنےکاروبار اس پر رجسٹر کرنا ہوگا۔اس کے بعد اپنی پراڈکٹ کے حوالے سے قیمت مقرر کریں گے پھر اپنی مصنوعات کئ تصاویر اور تعارف اس پر ڈالنا ہوگا جس کے بعد اپنی مصنوعات کو براہ راست یا ایمیزون وئیر ہاوس کے زریعے گاہک تک پہنچانا ہو گا۔
اس حوالے سے چونکہ مقابلہ دنیا بھر سے ہوتا ہے تو پھر پاکستانی شہریوں کو اپنی مصنوعات کا ناصرف معیار بہتر کرنا ہوگا بلکہ ان کی مارکیٹنگ یعنی تصویری اور تحریری تعارف بھی بہترین کروانا ہوگا۔
ایمزون سے حکومت کی بات چیت چل رہی ہے کہ پاکستانی بزنس مینوں کی تربیت کی جائے ۔پہلے تربیت کرنے والوں یعنی ماسٹر ٹرینر کی اپنی تربیت کی جائے تاکہ وہ پھر دوسروں کو یہ سب عمل سکھا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی کمپنیوں کو رجسٹریشن کے عمل سے گزرنا ہوگا پھر جو چیز بیچنا چاہتے ہیں اس کی ایمیزون کی اپنی شرائط ہیں ان کو پورا کرنا ہو گا کہ مثلا کوئی ایسی چیز جس کو جلد پر استعمال کرنا ہے، یا کھانے کی چیز ہے تو اس کے معیار کے حوالے سے خاص سرٹیفیکیشن وغیرہ مانگی جائے گی تاکہ یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اچھی کوالٹی کی ہے
ان کا کہنا تھا کہ پورا نیٹ ورک بنے گا جو ہمارے کاروبار کی مدد کرے گا کہ اپنی مصنوعات کی تصاویر کیسے بہتر کرنی ہیں۔ اور اس کی تفصیلات کیسے دینی ہے رینکنگ کیسے کرنی ہے۔؟ ایمیزون پر بیچنے کا عمل کافی سائنسی ہے اس کو سمجھنا ہوگا۔ یہ بنا سوچے سمجھے نہیں کر سکتے۔
کیا ایمیزون کی اشیا پاکستان میں دستیاب بھی ہوں گی؟
فی الحال پاکستان میں یہ اشیا دستیاب نہیں ہوں گی۔ اس حوالے سے کچھ مشکلات بھی ہیں مثلا سب پاکستانیوں کے پاس کریڈٹ کاڈز یا پے منٹ کے ڈیجیٹل زرائع ابھی تک نہیں ہیں۔ پاکستان میں انٹرنیشنل پے منٹ گیٹ وے پر کام ہو رہا ہے تاہم ابھی جیسا کہ پے پال بھی دستیاب نہیں تو ابھی کچھ وقت لگے گا۔ حکام کا کہنا ہے کہ ا ایمیزون کے پاکستان آنے کا یہ سفر مرحلہ وار ہوگا۔ فی الحال تو پاکستانی اپنی اشیا امریکہ سمیت دنیا بھر میں فروخت کر سکیں گے۔
کیا پاکستان میں پوسٹ اور کورئیر وغیرہ کا نظام اس مقصد کے لیے تیار ہے؟ ایمیزون کے پاس اس مقصد کے لیے دو طریقے ہیں ایک ایمیزون کی اپنی ڈیلیوری ہے اور ایک بیچنے والے کی طرف سے ڈیلیور کرنا ہے تاہم پاکستان میں زیادہ تر ایسا ہو گا کہ اکھٹا سامان ایمیزون کے ویئرہاؤس میں جائے گا جہاں سے خریداروں کو ایمیزون براہ راست ڈیلیور کرے گا۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں ایمیزون کے 175 ویئر ہاؤسز ہیں۔
Special Thanks to " Urdunews " for this report
No comments:
Post a Comment